PLEASE Contact us to Learn Quran online
Showing posts with label Article. Show all posts
Showing posts with label Article. Show all posts

جامعة الرشید: نئی بہاروں کے درمیاں

By: islamic On: September 09, 2018
  • Share The Gag
  • جامعة الرشید: نئی بہاروں کے درمیاں
    سلجھن / عمر فاروق راشد

    کراچی کے موجودہ احوال نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ غریب اور امیر کی قسمت ایک ساتھ پھوٹی ہے۔ تعلیم خوف ودہشت کا شکار ہے تو کاروبار بدامنی کا لقمہ تر بن گیا۔ مائیں اپنے لاڈلوں کو کیوں بھیجیں ایسی جگہ جہاں ان کی زندگی کو ہی مسائل در پیش ہوں۔ باپ کیوں اعلی تعلیم دلانے پر آمادہ ہوں، اگر ان کے نزدیک بچے کی واپسی ہی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہو۔ سرپرست کیوں دور دراز کی درس گاہوں کا انتخاب کریں جب میڈیا کی اسکرین اور صفحات کراچی کے لہو سے سرخ نظر آتے ہوں۔ بس! ایسی ہی کیفیت میں شہرعلم ودانش، شہرِ کراچی کے ارباب مدارس تقریباً یقین کیے بیٹھے تھے کہ امسال شاید ہی کوئی اس کوچے کا رُخ کرنے کو تیار ہوگا۔ عالم اسلام کی دگرگوں صورتِ حال کے پیش نظر عالمی جنگ کی خوفناک گھٹاو ¿ں نے فکر کی لگامیں کسی اور جانب موڑ رکھی ہیں۔ شدید ذہنی انتشار کے باعث علم، طالب علم اور ماہر شریعت ایسی شوقینیاں شاید ماند پڑتی جارہی ہیں۔
    شیطان، کفر اور ان کے چیلوں کی حیلہ سازیاں اپنی جگہ، مگر اللہ کی تدبیر ہمیشہ غالب آکر رہتی ہے۔ جامعة الرشید میں توقع سے بڑھ کر تشنگان علم کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ تعداد میں اضافہ حیرت کا باعث تھا تو باصلاحیت طلبہ کا خصوصی رجوع اس سے بھی بڑھ کر تعجب خیز، تمام شعبوں کے سربراہان انتخاب کے وقت اس الجھن کا شکار نظر آئے کہ کڑی شرائط اور سخت امتحان میں کامیاب ٹھہرنے والے زیادہ اور گنجائش انتہائی محدود، معذرت کی جائے تو کس سے اور وسائل کی شدید قلت میں داخلہ دیں تو کیسے؟ وہ مناظر واقعی قابل ستائش تھے جب اپنی مشکلات پر طلبہ کی حوصلہ افزائی کو ترجیح دیتے ہوئے ہر درس گاہ کے لیے طے شدہ تعداد سے زیادہ ناموں کی فہرستیں جابجا آویزاں نظر آئیں۔
    جامعة الرشید کا دینی تعلیم کا سیٹ اَپ اس وقت سات کلیہ جات کے درمیان دائر ہے: کلیة التخصصات جو 7 قسم کے تخصصات پر مشتمل ہے۔ کلیة الشریعہ جو گریجویٹ طلبہ کے لیے چار سالہ مختصر درس نظامی کا کورس ہے۔ کلیة الدعوة جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ داعی تیار کرنے کے لیے ایک بہترین کورس ہے۔ کلیة القرآن میںعلماءکے لیے تخصص فی القراآت مع تربیتی کورسز کا نظم قائم ہے۔ تین سالہ ”تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ والعلوم الاداریہ“ ایسے مفتیان کرام تیار کرنے کے لیے ہے جو جدید مالیاتی مسائل پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ ایم بی اے کی پروفیشنل تعلیم سے بھی آراستہ ہوں۔ شعبہ درس نظامی اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ مصروف خدمت ہے۔ پانچ سالہ معہد الرشید العربی، عربی میں درس نظامی پڑھانے کے لیے قائم ہے۔
    کلیة التخصصات کے تحت تخصص فی الافتاءوالفقہ حضرت والا مفتی رشید احمدؒ کے زمانے سے ایک معیار رکھتا ہے۔ ایسا بھی ہوا معیار کے مطابق ایک طالب علم کو داخلہ مل سکا تو پورا سال اساتذہ نے ایک ہی طالب علم کو پڑھایا۔ امسال 67 امیدواروں میں سے 20 طلبہ تین مراحل سے گزرکر داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تخصص فی اللغة العربیہ میں 30داخلے ہوئے۔ کلیة التخصصات کے تحت جاری کلیة الفنون جو معاصر اور کارآمد سات فنون کا ایک سالہ کورس ہے، اس میں 23داخلے ہوئے۔ ان دونوں شعبوں میں داخلوں کی تعداد طے شدہ مقدار سے کافی زیادہ ہے۔ انگلش لینگویج کورس کے لیے 16فضلا منتخب ہوئے۔ علاوہ ازیں بچوں کے لیے جاری 2کورسزحفاظ عربی کورس وحفاظ انگلش کورس میں 100سے زائد امید واروں میں سے صرف 25کا انتخاب ہوا۔
    کلیة الشریعہ کا معاملہ بھی ہر سال کی طرح انوکھا رہا۔ 135 درخواستوں میں سے 80کو امتحان کا موقع دیا گیا۔ ان میں سے 38کئی ایک امتحانی مراحل سے گزر کر کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ کامیاب ہونے والوں میں اکثر شرکا مختلف مضامین میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔ایم ایس سی، انجینئراور ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی اس نئے تعلیمی سلسلے سے منسلک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایک تعداد ایم فل تک کی تعلیم مکمل کرکے آنے والوں کی بھی ہے۔ دین، دینداروں اور دینی اداروں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈے کے باوجود انہی اداروں میں سے اتنی اور ایسی تعداد کا ٹھیٹ مولوی بننے کے قصد سے ایک مدرسے کی طرف رجوع کرنا غلبہ حق کی ایک واضح دلیل ہے۔
    درس نظامی میں محدود داخلوں کے اعلان پر صرف درجہ اولی میں 95طلبہ نئے داخل ہوئے۔ نظامی کے دیگر متفرق درجات میں نئے داخلوں کی تعداد 47 رہی۔ معہد الرشید العربی کے لیے کل 64 ہونہار طلبہ منتخب کیے گئے۔ ”تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ والعلوم الاداریہ“ یعنی فقہ المعاملات المالیہ مع ایم بی اے میں 10 طلبہ منتخب ہوکر دینی و عصری علوم کو ایک ساتھ سیکھنے کے تین سالہ تعلیمی سفر پر روانہ ہوئے ہیں۔ کلیة الدعوہ میں 30 فضلائے کرام شریک کارواں بنے ہیں۔ ان میں کئی ایک متخصصین بھی ہیں۔ تخصص فی القراآت میں 23 علمائے کرام بہترین مجود و مدرس قرآن بننے کے عزم کے ساتھ شریک کورس ہوئے ہیں۔
    جامعة الرشید غیر روایتی انداز میں جس طرح مختلف طبقوں کے مزاج اور ضروریات کو سامنے رکھ کر ہدفی خدمات انجام دینے کے اصول پر قائم ہے، اللہ کی خصوصی تایید کے سائے میں معاشرے سے چنیدہ افراد کا ہی رجوع جامعہ کی طرف ہے۔ یوں جامعہ افراد سازی کی ایسی مہم پر رواں دواں ہے جو ہر طبقے میں مہارت اور بصیرت کے حامل افراد مہیا کرسکے۔ اپنے اس مشن اور مقصد میں الحمدللہ ادارہ تقریباً سو فیصد کامیاب ہے۔ اللہ ان بہاروں کو سدا قائم رکھے۔

    فیس بک: مثبت استعمال کی ضرورت

    By: islamic On: August 06, 2017
  • Share The Gag
  • فیس بک: مثبت استعمال کی ضرورت
    سلجھن / عمر فاروق راشد
    جدید وسائل کے بارے میں یہ نکتہ بے غبار ہے ان میں فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ بم بارود سے سوشل میڈیا تک اسی ضابطے کا حصہ ہیں۔ استفادہ کرنے والوں میں بھی دونوں فریق موجود ہیں۔ خیر کے علم بردار بھی اور شر کے پرچارک بھی۔ یوں ان چیزوں کو یکسر مسترد کر دینا ممکن ہے نہ ہی کھلی چھوٹ دے دینے میں عافیت ہے۔ اہل تجربہ سمجھتے ہیں ہمیں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک میں جائز حد تک مفید، تعمیری اور رجحان ساز استعمال یقینی بنانا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے تیز تر استعمال اور ہر شعبے کا احاطہ کرلینے کے بعد خیر کی قوتوں کا پیچھے رہنا بجائے خود ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ فیس بک کی طوفانی یلغار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ فیس بک کا آغاز 2004ءمیں ہوا۔ چند سالوں میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔ 16 اپریل 2013ءتک فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 97 کروڑ 89 لاکھ 98 ہزار 180 تھی، جبکہ پاکستان میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی 86 لاکھ 24 ہزار 480 سے تجاوز کرچکی ہے۔ فیس بک کے ذریعے سے کوئی بھی شخص اپنے نظریات، خیالات اور تجارت و کاروبار تک کو دوسروں سے متعارف کرواسکتا ہے۔
    سوشل میڈیا کے حوالے سے دوسرا نکتہ یہ قابل غور ہے کہ یہ ایک ایسا میڈیا ہے جو فی الحال مکمل آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ اپنے دل اور ضمیر کی بات بڑی آزادی کے ساتھ عوام تک پہنچاسکتے ہیں۔ دیگر کوئی بھی میڈیا اپنا مزاج، اپنے ضوابط اور اپنی ترجیحات رکھتا ہے۔ نیز وطن عزیز کا اکثر میڈیا مغرب نوازی کے الزام سے بری نہیں۔ ذیل میں ہم جائزہ لیتے ہیں کس طرح سوشل میڈیا صرف آزاد ہی نہیں، ایک بڑھتی ہوئی طاقت بھی ہے۔ میڈیا کی نا ختم ہونے والی دوڑ کا آغاز اخبارات اور رسائل سے ہوا۔ 1900ءمیں ریڈیو ایجاد ہوا اور اس نے اخبارات ورسائل کی اہمیت کو کم کردیا۔ 1950ءمیں T.V نے تمام ذرائع ابلاغ کو مات دے دی اور وہ تن تنہا میڈیا کا بادشاہ بن گیا، مگر 21 ویں صدی کا آغاز ہوتے ہی سوشل میڈیا نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو شکست سے دو چار کیا۔
    اب ایسے دور کا آغاز ہوا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بڑے بڑے نام بھی سوشل میڈیا سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کا بنیادی راز یہی ہے کہ یہاں ہر شخص اپنے احساسات اور خیالات آتے ہیں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ فیس بک کے ایک ایک صفحے (Page) کو پسند کرنے والے (Like) کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آپ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔اس وقت کم وبیش ہر شخص اس بات کا قائل ہے کہ سوشل میڈیا کسی بھی میڈیا سے زیادہ طاقتور ہوچکا۔ اس وقت سوشل میڈیا کی دنیا میں 90 فیصد حصہ فیس بک کا ہے، جس کے باعث اب دنیا میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہورہے ہیں۔
    پاکستان میں 12 سے زائد ایسے پیجز ہیں جن کو لائیک کرنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ہے۔ ان پیجز کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی پوسٹ پر منٹوں اور سیکنڈوں میں رسپانس آنا شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ اشاعت کا دعویٰ رکھنے والا اخبار بھی روزانہ سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں چھپتا، تاہم اس میں شائع ہونے والی خبر بھی وہ دھماکا نہیں کرتی جو ایک لاکھ لائیکس رکھنے والے فیس بک کی پوسٹ کردیتی ہے۔ فیس بک کے ایک بڑے پیج کا ایڈمن اس وقت خود کو کسی بادشاہ کی طرح محسوس کرتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے اس کی پوسٹ پر ہزاروں کمنٹس اور ہزاروں لائیکس آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ماہرین کا خیال ہے فی الحال فیس بک پر کوئی قیادت موجود نہیںہے، جس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور مذہبی طبقے کو آگے آنا چاہیے اور سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر اپنے اکاو ¿نٹ بنانے چاہییں۔ تعلیمی اور مذہبی اداروں کو اپنے اپنے پیجز بنانے چاہییں اور انہیں پروموٹ کرنا چاہیے۔ اجتماعات منعقد کرکے لوگوں کو فیس بک کے نفع اور نقصان سے آگاہ کرنا چاہیے۔ فیس بک کے مثبت استعمال کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ”مجلس علمی سوسائٹی کراچی“ نے نہایت مفید، تعمیری، تبلیغی اور بروقت مذہبی رہنمائی پر مشتمل پوسٹیں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو دنوں میں اس کے مخاطبین کی تعداد کئی بڑے Pages سے بھی بڑھ گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دم تحریر اس کے لائیکس کی تعداد 3لاکھ 89ہوچکی ہے۔ گویا اس کے تبلیغی اصلاحی پیغامات روزانہ اتنی تعداد میں لوگوں تک پہنچتے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
    یہاں نوجوانوں سے ایک گلہ نما گزارش ضرور ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے جذبات، جذباتیت اور ذاتی دلچسپیاں ہماری عقل کو کھا نہ جائیں۔ فیس بک کے بے لگام استعمال میں ہمارے ہاتھ کسی کی پگڑی پہ نہ جاپڑیں۔ ہمارے الفاظ اور فن کسی کی عقیدت کے آبگینوں کو ریزہ ریزہ نہ کردیں۔ ہمارا کوئی کمنٹ، کوئی شیئر اور کوئی کلک تیر بن کر کسی کی عزت کی چادر سے آر پار نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تو شاید بتانے کی ضرورت ہی نہیں انٹرنیٹ گویا ایک نظر آنے والا شیطان ہے۔ اس کی ابلیسیت کے وار سے بچئے۔ ہمیں کسی بھی مشکوک چیز پر کلک کرنے سے مکمل گریز کرنا چاہیے، ورنہ ہم بھٹکتے ہوئے ایسی وادی میں پہنچ سکتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی۔
    بلند مقاصد، دفاع اسلام اور مظلوموں کی آہوں اور کراہوں کو ہر در وبام تک پہنچانے کا عزم رکھنے والے شیطان کا یہ تھوکا چاٹنے سے گریز ہی کریں تو ان کو زیب دے گا۔ آپ اپنے فیس بک اکاو ¿نٹ کے ذریعے اتحاد و اتفاق کی آواز بلند کیجیے۔ تعمیری پوسٹیں تیار کر کے شیئر کیجیے۔ سیکولر ازم کی ہر ممکن حوصلہ شکنی اور اسلام پسندوں کی سربلندی کا بیڑہ اٹھائیے۔ عالم اسلام کے لہولہان حصوں کے احوال ناواقفان حال تک پہنچائیے۔ خوب واضح رہے فیس بک استعمال کرتے ہوئے ہمیں ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے یہود و نصاری کا بنایا اور چلایا ہوا یہ میڈیا کسی بھی وقت ہمیں ڈس بھی سکتا ہے۔ اگر کبھی انہوں نے ہماری مقدس شخصیات کی ناموس کے حوالے سے رکیک رویہ اپنانے کی کوشش کی تو ہم اس کے بائیکاٹ میں تاخیر نہ کریں گے۔