فیس بک: مثبت استعمال کی ضرورت
سلجھن / عمر فاروق راشد
جدید وسائل کے بارے میں یہ نکتہ بے غبار ہے ان میں فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ بم بارود سے سوشل میڈیا تک اسی ضابطے کا حصہ ہیں۔ استفادہ کرنے والوں میں بھی دونوں فریق موجود ہیں۔ خیر کے علم بردار بھی اور شر کے پرچارک بھی۔ یوں ان چیزوں کو یکسر مسترد کر دینا ممکن ہے نہ ہی کھلی چھوٹ دے دینے میں عافیت ہے۔ اہل تجربہ سمجھتے ہیں ہمیں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک میں جائز حد تک مفید، تعمیری اور رجحان ساز استعمال یقینی بنانا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے تیز تر استعمال اور ہر شعبے کا احاطہ کرلینے کے بعد خیر کی قوتوں کا پیچھے رہنا بجائے خود ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ فیس بک کی طوفانی یلغار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ فیس بک کا آغاز 2004ءمیں ہوا۔ چند سالوں میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔ 16 اپریل 2013ءتک فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 97 کروڑ 89 لاکھ 98 ہزار 180 تھی، جبکہ پاکستان میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی 86 لاکھ 24 ہزار 480 سے تجاوز کرچکی ہے۔ فیس بک کے ذریعے سے کوئی بھی شخص اپنے نظریات، خیالات اور تجارت و کاروبار تک کو دوسروں سے متعارف کرواسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے دوسرا نکتہ یہ قابل غور ہے کہ یہ ایک ایسا میڈیا ہے جو فی الحال مکمل آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ اپنے دل اور ضمیر کی بات بڑی آزادی کے ساتھ عوام تک پہنچاسکتے ہیں۔ دیگر کوئی بھی میڈیا اپنا مزاج، اپنے ضوابط اور اپنی ترجیحات رکھتا ہے۔ نیز وطن عزیز کا اکثر میڈیا مغرب نوازی کے الزام سے بری نہیں۔ ذیل میں ہم جائزہ لیتے ہیں کس طرح سوشل میڈیا صرف آزاد ہی نہیں، ایک بڑھتی ہوئی طاقت بھی ہے۔ میڈیا کی نا ختم ہونے والی دوڑ کا آغاز اخبارات اور رسائل سے ہوا۔ 1900ءمیں ریڈیو ایجاد ہوا اور اس نے اخبارات ورسائل کی اہمیت کو کم کردیا۔ 1950ءمیں T.V نے تمام ذرائع ابلاغ کو مات دے دی اور وہ تن تنہا میڈیا کا بادشاہ بن گیا، مگر 21 ویں صدی کا آغاز ہوتے ہی سوشل میڈیا نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو شکست سے دو چار کیا۔
اب ایسے دور کا آغاز ہوا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بڑے بڑے نام بھی سوشل میڈیا سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کا بنیادی راز یہی ہے کہ یہاں ہر شخص اپنے احساسات اور خیالات آتے ہیں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ فیس بک کے ایک ایک صفحے (Page) کو پسند کرنے والے (Like) کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آپ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔اس وقت کم وبیش ہر شخص اس بات کا قائل ہے کہ سوشل میڈیا کسی بھی میڈیا سے زیادہ طاقتور ہوچکا۔ اس وقت سوشل میڈیا کی دنیا میں 90 فیصد حصہ فیس بک کا ہے، جس کے باعث اب دنیا میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہورہے ہیں۔
پاکستان میں 12 سے زائد ایسے پیجز ہیں جن کو لائیک کرنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ہے۔ ان پیجز کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی پوسٹ پر منٹوں اور سیکنڈوں میں رسپانس آنا شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ اشاعت کا دعویٰ رکھنے والا اخبار بھی روزانہ سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں چھپتا، تاہم اس میں شائع ہونے والی خبر بھی وہ دھماکا نہیں کرتی جو ایک لاکھ لائیکس رکھنے والے فیس بک کی پوسٹ کردیتی ہے۔ فیس بک کے ایک بڑے پیج کا ایڈمن اس وقت خود کو کسی بادشاہ کی طرح محسوس کرتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے اس کی پوسٹ پر ہزاروں کمنٹس اور ہزاروں لائیکس آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ماہرین کا خیال ہے فی الحال فیس بک پر کوئی قیادت موجود نہیںہے، جس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور مذہبی طبقے کو آگے آنا چاہیے اور سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر اپنے اکاو ¿نٹ بنانے چاہییں۔ تعلیمی اور مذہبی اداروں کو اپنے اپنے پیجز بنانے چاہییں اور انہیں پروموٹ کرنا چاہیے۔ اجتماعات منعقد کرکے لوگوں کو فیس بک کے نفع اور نقصان سے آگاہ کرنا چاہیے۔ فیس بک کے مثبت استعمال کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ”مجلس علمی سوسائٹی کراچی“ نے نہایت مفید، تعمیری، تبلیغی اور بروقت مذہبی رہنمائی پر مشتمل پوسٹیں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو دنوں میں اس کے مخاطبین کی تعداد کئی بڑے Pages سے بھی بڑھ گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دم تحریر اس کے لائیکس کی تعداد 3لاکھ 89ہوچکی ہے۔ گویا اس کے تبلیغی اصلاحی پیغامات روزانہ اتنی تعداد میں لوگوں تک پہنچتے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یہاں نوجوانوں سے ایک گلہ نما گزارش ضرور ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے جذبات، جذباتیت اور ذاتی دلچسپیاں ہماری عقل کو کھا نہ جائیں۔ فیس بک کے بے لگام استعمال میں ہمارے ہاتھ کسی کی پگڑی پہ نہ جاپڑیں۔ ہمارے الفاظ اور فن کسی کی عقیدت کے آبگینوں کو ریزہ ریزہ نہ کردیں۔ ہمارا کوئی کمنٹ، کوئی شیئر اور کوئی کلک تیر بن کر کسی کی عزت کی چادر سے آر پار نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تو شاید بتانے کی ضرورت ہی نہیں انٹرنیٹ گویا ایک نظر آنے والا شیطان ہے۔ اس کی ابلیسیت کے وار سے بچئے۔ ہمیں کسی بھی مشکوک چیز پر کلک کرنے سے مکمل گریز کرنا چاہیے، ورنہ ہم بھٹکتے ہوئے ایسی وادی میں پہنچ سکتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی۔
بلند مقاصد، دفاع اسلام اور مظلوموں کی آہوں اور کراہوں کو ہر در وبام تک پہنچانے کا عزم رکھنے والے شیطان کا یہ تھوکا چاٹنے سے گریز ہی کریں تو ان کو زیب دے گا۔ آپ اپنے فیس بک اکاو ¿نٹ کے ذریعے اتحاد و اتفاق کی آواز بلند کیجیے۔ تعمیری پوسٹیں تیار کر کے شیئر کیجیے۔ سیکولر ازم کی ہر ممکن حوصلہ شکنی اور اسلام پسندوں کی سربلندی کا بیڑہ اٹھائیے۔ عالم اسلام کے لہولہان حصوں کے احوال ناواقفان حال تک پہنچائیے۔ خوب واضح رہے فیس بک استعمال کرتے ہوئے ہمیں ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے یہود و نصاری کا بنایا اور چلایا ہوا یہ میڈیا کسی بھی وقت ہمیں ڈس بھی سکتا ہے۔ اگر کبھی انہوں نے ہماری مقدس شخصیات کی ناموس کے حوالے سے رکیک رویہ اپنانے کی کوشش کی تو ہم اس کے بائیکاٹ میں تاخیر نہ کریں گے۔
سلجھن / عمر فاروق راشد
جدید وسائل کے بارے میں یہ نکتہ بے غبار ہے ان میں فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ بم بارود سے سوشل میڈیا تک اسی ضابطے کا حصہ ہیں۔ استفادہ کرنے والوں میں بھی دونوں فریق موجود ہیں۔ خیر کے علم بردار بھی اور شر کے پرچارک بھی۔ یوں ان چیزوں کو یکسر مسترد کر دینا ممکن ہے نہ ہی کھلی چھوٹ دے دینے میں عافیت ہے۔ اہل تجربہ سمجھتے ہیں ہمیں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک میں جائز حد تک مفید، تعمیری اور رجحان ساز استعمال یقینی بنانا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے تیز تر استعمال اور ہر شعبے کا احاطہ کرلینے کے بعد خیر کی قوتوں کا پیچھے رہنا بجائے خود ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ فیس بک کی طوفانی یلغار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ فیس بک کا آغاز 2004ءمیں ہوا۔ چند سالوں میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔ 16 اپریل 2013ءتک فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 97 کروڑ 89 لاکھ 98 ہزار 180 تھی، جبکہ پاکستان میں اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی 86 لاکھ 24 ہزار 480 سے تجاوز کرچکی ہے۔ فیس بک کے ذریعے سے کوئی بھی شخص اپنے نظریات، خیالات اور تجارت و کاروبار تک کو دوسروں سے متعارف کرواسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے دوسرا نکتہ یہ قابل غور ہے کہ یہ ایک ایسا میڈیا ہے جو فی الحال مکمل آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ اپنے دل اور ضمیر کی بات بڑی آزادی کے ساتھ عوام تک پہنچاسکتے ہیں۔ دیگر کوئی بھی میڈیا اپنا مزاج، اپنے ضوابط اور اپنی ترجیحات رکھتا ہے۔ نیز وطن عزیز کا اکثر میڈیا مغرب نوازی کے الزام سے بری نہیں۔ ذیل میں ہم جائزہ لیتے ہیں کس طرح سوشل میڈیا صرف آزاد ہی نہیں، ایک بڑھتی ہوئی طاقت بھی ہے۔ میڈیا کی نا ختم ہونے والی دوڑ کا آغاز اخبارات اور رسائل سے ہوا۔ 1900ءمیں ریڈیو ایجاد ہوا اور اس نے اخبارات ورسائل کی اہمیت کو کم کردیا۔ 1950ءمیں T.V نے تمام ذرائع ابلاغ کو مات دے دی اور وہ تن تنہا میڈیا کا بادشاہ بن گیا، مگر 21 ویں صدی کا آغاز ہوتے ہی سوشل میڈیا نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو شکست سے دو چار کیا۔
اب ایسے دور کا آغاز ہوا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بڑے بڑے نام بھی سوشل میڈیا سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کا بنیادی راز یہی ہے کہ یہاں ہر شخص اپنے احساسات اور خیالات آتے ہیں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ فیس بک کے ایک ایک صفحے (Page) کو پسند کرنے والے (Like) کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آپ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔اس وقت کم وبیش ہر شخص اس بات کا قائل ہے کہ سوشل میڈیا کسی بھی میڈیا سے زیادہ طاقتور ہوچکا۔ اس وقت سوشل میڈیا کی دنیا میں 90 فیصد حصہ فیس بک کا ہے، جس کے باعث اب دنیا میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہورہے ہیں۔
پاکستان میں 12 سے زائد ایسے پیجز ہیں جن کو لائیک کرنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ہے۔ ان پیجز کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی پوسٹ پر منٹوں اور سیکنڈوں میں رسپانس آنا شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ اشاعت کا دعویٰ رکھنے والا اخبار بھی روزانہ سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں چھپتا، تاہم اس میں شائع ہونے والی خبر بھی وہ دھماکا نہیں کرتی جو ایک لاکھ لائیکس رکھنے والے فیس بک کی پوسٹ کردیتی ہے۔ فیس بک کے ایک بڑے پیج کا ایڈمن اس وقت خود کو کسی بادشاہ کی طرح محسوس کرتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے اس کی پوسٹ پر ہزاروں کمنٹس اور ہزاروں لائیکس آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ماہرین کا خیال ہے فی الحال فیس بک پر کوئی قیادت موجود نہیںہے، جس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور مذہبی طبقے کو آگے آنا چاہیے اور سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر اپنے اکاو ¿نٹ بنانے چاہییں۔ تعلیمی اور مذہبی اداروں کو اپنے اپنے پیجز بنانے چاہییں اور انہیں پروموٹ کرنا چاہیے۔ اجتماعات منعقد کرکے لوگوں کو فیس بک کے نفع اور نقصان سے آگاہ کرنا چاہیے۔ فیس بک کے مثبت استعمال کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ”مجلس علمی سوسائٹی کراچی“ نے نہایت مفید، تعمیری، تبلیغی اور بروقت مذہبی رہنمائی پر مشتمل پوسٹیں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو دنوں میں اس کے مخاطبین کی تعداد کئی بڑے Pages سے بھی بڑھ گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دم تحریر اس کے لائیکس کی تعداد 3لاکھ 89ہوچکی ہے۔ گویا اس کے تبلیغی اصلاحی پیغامات روزانہ اتنی تعداد میں لوگوں تک پہنچتے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یہاں نوجوانوں سے ایک گلہ نما گزارش ضرور ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے جذبات، جذباتیت اور ذاتی دلچسپیاں ہماری عقل کو کھا نہ جائیں۔ فیس بک کے بے لگام استعمال میں ہمارے ہاتھ کسی کی پگڑی پہ نہ جاپڑیں۔ ہمارے الفاظ اور فن کسی کی عقیدت کے آبگینوں کو ریزہ ریزہ نہ کردیں۔ ہمارا کوئی کمنٹ، کوئی شیئر اور کوئی کلک تیر بن کر کسی کی عزت کی چادر سے آر پار نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تو شاید بتانے کی ضرورت ہی نہیں انٹرنیٹ گویا ایک نظر آنے والا شیطان ہے۔ اس کی ابلیسیت کے وار سے بچئے۔ ہمیں کسی بھی مشکوک چیز پر کلک کرنے سے مکمل گریز کرنا چاہیے، ورنہ ہم بھٹکتے ہوئے ایسی وادی میں پہنچ سکتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی۔
بلند مقاصد، دفاع اسلام اور مظلوموں کی آہوں اور کراہوں کو ہر در وبام تک پہنچانے کا عزم رکھنے والے شیطان کا یہ تھوکا چاٹنے سے گریز ہی کریں تو ان کو زیب دے گا۔ آپ اپنے فیس بک اکاو ¿نٹ کے ذریعے اتحاد و اتفاق کی آواز بلند کیجیے۔ تعمیری پوسٹیں تیار کر کے شیئر کیجیے۔ سیکولر ازم کی ہر ممکن حوصلہ شکنی اور اسلام پسندوں کی سربلندی کا بیڑہ اٹھائیے۔ عالم اسلام کے لہولہان حصوں کے احوال ناواقفان حال تک پہنچائیے۔ خوب واضح رہے فیس بک استعمال کرتے ہوئے ہمیں ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے یہود و نصاری کا بنایا اور چلایا ہوا یہ میڈیا کسی بھی وقت ہمیں ڈس بھی سکتا ہے۔ اگر کبھی انہوں نے ہماری مقدس شخصیات کی ناموس کے حوالے سے رکیک رویہ اپنانے کی کوشش کی تو ہم اس کے بائیکاٹ میں تاخیر نہ کریں گے۔
0 comments:
Post a Comment
thanks